خلیج فارس، دنیا کے سب سے اسٹریٹجک، اہم اور قدیم ترین آبی گزرگاہوں میں سے ایک ہے، جو خطے کی جغرافیائی سیاسی، تجارتی اور ثقافتی مساوات میں کلیدی کردار رکھتا ہے۔
دنیا بھر سے کتابوں، نقشوں، سفارتی اور سائنسی تحریروں کی شکل میں بے شمار دستاویزات اس بات کی گواہی ہیں ہیں کہ یہ نام جغرافیائی اور تاریخی حقیقت ہے۔
حالیہ دنوں میں، اس قدیم خلیج کا نام ایک بار پھر سیاسی تنازعہ کا مرکز بن گیا ہے، اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے "خلیج فارس" کا نام بدل کر "خلیج عرب" رکھنے کی افواہیں سننے کو مل رہی ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیاں بطور امریکی صدر اپنی پہلی صدارتی مدت کے دوران بنیادی طور پر ایران پہ سیاسی، اقتصادی اور نفسیاتی دباؤ بڑھانے پر مرکوز تھیں اور اب اپنی دوسری صدارتی مدت میں وہ ایران پر سیاسی، اقتصادی اور نفسیاتی دباؤ کے ساتھ زیادہ پیچیدہ کھیل کھیلنا چاہتے ہیں۔
ایران کی جانب سے خلیج فارس کے نام میں کسی قسم کی تبدیلی کی مخالفت صرف ایک قوم پرست یا جذباتی حساسیت نہیں ہے بلکہ خطے کے تاریخی، جغرافیائی اور ثقافتی تشخص کو مسخ کرنے کی کوشش کا فیصلہ کن جواب ہے، کیونکہ "خلیج فارس" کا نام نہ صرف ایران کی تاریخی شناخت کا حصہ ہے، بلکہ عالمی سطح پر عالمی تنظیموں کی جانب سے رجسٹرڈ دستاویزات اور نقشوں ( اقوام متحدہ، یونیسکو، اور بہت سے سائنسی انسائیکلوپیڈیا) میں اس نام کی موجودگی ایسی دستاویز ہیں جسے عالمی سطح پر تسلیم کی جاتی ہیں۔
اس خوبصورت ایرانی خلیج کی تاریخی شناخت کو واضح اور محفوظ کرنے کے لیے ہم مستند متن میں خلیج فارس کے نام کی تاریخ کا جائزہ لیں گے اور پھر اہم تاریخی نقشوں کی دو مثالوں کی طرف اشارہ کریں گے جن میں "خلیج فارس" واضح طور پر درج ہے۔
ہر قوم کی تاریخی شناخت اس کا منفرد اثاثہ ہوتی ہے
IRNA کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں، ایران نیشنل آرکائیوز اور لائبریری کے ڈائریکٹر مسعود برزگر جلالی نے کہا کہ ہر قوم کی تاریخی شناخت اس قوم کا بے مثال اثاثہ سمجھی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران دنیا کی 3 قدیم تہذیبوں میں سے ایک ہے، جس کی تاریخ 7 ہزار سال سے زیادہ ہے، لہذا کسی بھی طرح سے امریکہ جیسے جدید ممالک سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا، جسے صرف 700 سال پہلے دریافت کیا گیا۔
برزگر جلالی نے کہا ہماری تہذیب کی باقیات کو گزشتہ برسوں میں دریافت اور ضبط کر کے دنیا بھر کے عجائب گھروں میں رکھا گیا ہے، جو ایرانی تاریخ کے عظیم قدیم ہونے کی نشاندہی کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کئی ہزار سال پرانی تاریخی دستاویزات اور کتابوں، مثال کے طور پہ "المسالک و الممالک"، "حدود العالم من المشرق الی المغرب" اور دیگر کتابیں اور دستاویزات جو یونیسکو کی تاریخی یادداشت کا حصہ ہیں، نے واضح طور پر "فارس خلیج" کا ذکر کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ خلیج فارس کا نام عرب حوالہ جات کی کتابوں میں بھی خلیج فارس، خلیج پارس اور خلیج پارسہ کے طور پر مذکور ہے اور یہ نام دنیا کے واضح ترین عنوانات میں سے ایک ہے۔
نقشے میں سبز حصہ ایران ہے
پہلی مثال: برطانوی نقشہ
"ایشیا کا نقشہ" کہلانے والا یہ نقشہ 1801 میں شائع ہوا (ایران روس جنگ اور قاجار کے ابتدائی دور سے پہلے)
اس نقشے کے وسط میں سبز علاقہ ان سالوں میں ایران کے علاقے کی نمائندگی کرتا ہے۔ نقشے میں ایران کے جنوب مغربی حصے میں انگریزی نام "خلیج فارس" واضح طور پر نظر آتا ہے۔
نقشے کے کونے میں موجود نام کے مطابق یہ نقشہ "جارج ایلن" نے بنایا تھا۔
دوسری مثال: استنبول کا نقشہ
یہ نقشہ 1330ھ میں فارسی زبان میں تیار کیا گیا تھا۔
نقشے کے کونے میں لکھی تحریر کے مطابق اس نقشے کو استنبول شہر میں بنایا گیا۔
اس نقشے میں ایران کا علاقہ دکھایا گیا ہے، اور نقشہ تیار کرتے وقت اس کے شہروں اور سمندروں کے نام بھی نقشے پر لکھے ہوئے ہیں۔
خلیج فارس کے فرضی نام کے نقطہ آغاز کے بارے میں، نارتھ ویسٹ نیشنل آرکائیوز اینڈ لائبریری کے ڈائریکٹر جنرل نے بتایا کہ 1960 میں ایک برطانوی مشیر نے اپنی کتاب میں خلیج فارس کے لیے خلیج عرب کا فرضی نام تجویز کیا تھا اور اس کی وجہ یہ بتائی تھی کہ میں نے اس خلیج کے ارد گرد عربوں کو دیکھا تھا اور اس بات کو ادب کے منافی سمجھا کہ اس خلیج کا نام خلیج عرب نہ ہو، اور پھر ایک عرب رہنما نے اس کا غلط استعمال کیا۔
آپ کا تبصرہ